پونے کے عابدہ انعامدار کالج کے شعبہ کمپیوٹر کے 135طلباء تعلیمی سیر کے لیئے مروڈ جنجیرہ گئے تھے جس میں سے 14طلباء کی مروڈ کے ساحل پر ہوئی موت واقعی دل کو دہلادینے والی ہے ،یہ حکومت غیرسنجیدگی، اور ہدایات پر عمل نہ کرنے لاپرواہی کرتے ہوئے نوجوانوں کی موت کو خود دعوت دینے کے مترادف ہے،یہ تحقیقات کا ایک حصہ ہوسکتا ہے ، نوجوانوں کو ان کے والدین نے بہت ہی پیار ومحبت سے بڑاکیا ،ان کے تعلق سے سنہرے خواب دیکھے ،اور ان کے بڑاہوکر کچھ کردیکھانے کے دن آنے سے پہلے ہی وقت نے ان کا سب کچھ برباد کردیا ، یہ حادثہ ان والدین کے لئے کبھی نہ بھرنے والا زخم ہے ،اور ان کے بڑھاپے کا سہارہ کی لاٹھی چھین جانے جیسا ہے ، سیر کے لئے سمندر کنارے جانے والوں کی اموات واقع ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کی وجوہات بھی ہمشہ کی طرح ہی ہوتی ہیں ، لیکن اس سے کچھ سبق نہیں لیا جاتا ،سمندری لہروں کا اندازہ لیکر سمندر میں جاناہوتا ہے ، چاند ،سورج ، زمین کی گردش کے لحاظ سے سمندوں میں آنے والی طوفانی لہروں کا وقت متعین ہوتا ہے اس کا اندازہ وہاں کے مقامی افراد خصوصا مچھیروں کو رہتا ہے ،جن افراد کا مقصد سمندر سے صرف سیاحت تک ہوتا ہے ،وہ اس تعلق سے ضروری احتیاط سے کام لیں تو ایسے جان لیواحادثات کو ٹالاجاسکتا ہے ، وہاں رہنے والے مقامی افراد سے معلومات حاصل کرکے اور سمندری ساحل پر لگائے گئے خطرہ سے آگاہ کرنے والی ہدایات پر عمل کیا جائے تو ہم اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن بہت سے سیاح اس کو نظر انداز کرتے ہیں ،اس پر کوئی بھی عمل نہیں کرتا ، وہ خود ہوکر ایسے جان لیوا حادثات کو دعوت دیتے ہیں ،کوکن علاقے کے سمندر کی لہروں کی رفتار کا اندازہ دور سے نہیں کیاجاسکتا ،یہ طوفانی لہریں سمندر کے کنارے نزدیک آنے کے بعدجو کچھ بھی ہوتا ہے وہ بہا کر لیجاتے ہیں ، کوکن علاقے کا رائے گڈھ ضلع کے سمندری کنارے ، ناگاؤں ، کاشید ، ہری ہریشور، مروڈ ، دیوے آگار ، شری وردھن ، اور رتنا گری ضلع گنپتی پڑے اور دیگر سمندری کناروں پر ہزاروں کی تعداد میں سیاح سیر کے لئے آتے ہیں ان میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ،نوجوانوں کو سمندر میں اترنا اچھا لگتا ہے ،تیراکی نہ آنے کے باوجود وہ سمندر میں اترتے ہیں ،انہیں سمندر کی گہرائی کا اندازہ بالکل نہیں ہوتا ،طوفانی لہروں کی وجہ سے سمندر کے اندر کھینچے چلے جاتے ہیں اس دوارن ان کے پیروں کے نیچے کی ریت نکل جاتی ہے جس سے کئی افراد کی ڈوب نے سے موت واقع ہوتی ہے ،ان واقعات کے پیش نظر ریاستی حکومت نے جن سمندری ساحلوں پر زیادہ تعداد میں سیاح آتے ہیں ان مقامات پر لائف گارڈ رتعینات کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں ،لیکن ان لائف گارڈ کی تنخواہیں کون ادا کریگا اس بابت کچھ نہیں کہا گیا اس وجہ سے کوکن علاقے جہاں سمندری ساحل واقع ہیں، وہاں کی گرام پنچایتوں نے لائف گارڈ کاتقر ر نہیں کیا ہے ،بہت سے سمندر ی ساحل پر لائف گارڈ نہ ہونے سے ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں ، حکومت سیاحت کے توسط سے محصول تو حاصل کرنا چاہتی ہے ،لیکن سیاحوں کے تحفظ کے لئے اقدامات کو نظرانداز کرتی ہے ،سماجی انصاف کے وزیر دلیپ کامبلے اب سمندری ساحلوں پرلائف گارڈ کا تقرر کرنے کااعلان کیا ہے اور خطرناک جگہوں پر سیر وتفریح پر امتناع عائد کیا ہے ان کا یہ اعلان ہوا میں تیر چلانے جیسا ہے کیونکہ اس ضمن میں جاری کئے گئے احکامات پرعمل نہیں ہوتا اس پر حکومت کیاکرے اس طرح کا سوال پیداہوتا ہے ، سمندری ساحل پرلائف گارڈ
تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر طبی سہولیات بھی فراہم کرنا ضروری ہے جہاں اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں ، جس وقت مروڈ کے ساحل پر یہ حادثہ رونما ہوا وہاں پراگربروقت طبی امدا د میسر ہوتی تو بہت سی جانوں کو بچایا جاسکتا تھا ،ایمبولنس کا انتطام بھی نہیں تھا ،زخمیوں کو اور نعشوں کو سیروتفریح کے لئے استعمال ہونے والی گھوڑا گاڑیوں کے ذریعے اسپتال منتقل کیا گیا ،اگر وہاں میڈیکل یونٹ ہوتا ایمبولینس ہوتی بہت حدتک راحت ملتی ،اس لئے ضروری ہیکہ مروڈ جنجیرہ کے حادثہ سے حکومت سبق لیتے ہوئے وہاں پر لائف گارڈ کوتعینات کرے اور ساتھ ہی بروقت طبی سہولیات فراہم کرنے کے انتظامات کرے تاکہ مستقبل میں ایسے خوفناک حادثات کوٹالہ جاسکے،اس ضمن میں 2006میں ہائیکورٹ نے ضروری ہدایاتیں جاری کی تھی جس کے مطابق ساحلوں پر واچ ٹاور قائم کرنے اور لائف گارڈکو تعینات کرنا شامل تھالیکن حکومت نے اس جانب ابھی کوئی اقدام نہیں کیا ،مروڈ حادثہ لیکر ایک مفاد عامہ کی درخواست بھی ہائیکورٹ میں داخل کی گئی ہے،جس کی ہائیکورٹ نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے حکومت سے ایسے حادثات روکنے کے بارے میں کیا اقدامات کئے ہیں اس بابت پوچھا ہے جس کی آئندہ سماعت 10فروری کو مقرر ہے اب دیکھنایہ ہیکہ حکومت مروڈ کے حادثہ سے کوئی سبق لیکر کیا اقدامات کرتی ہے، عابدہ انعامدار کالج کے طلباء کو مقامی افراد نے ساحل پر ا س جگہ نہ جانے کے بارے میں ہدایت دی تھی لیکن پرجوش نوجوانوں نے اس خطرہ کی ہدایات کو نظرانداز کردیا اس لئے ان کو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ،طلباء کو سیر پر لیجاتے وقت ان کے ساتھ اساتذہ بھی تھے لیکن جوشیلے نوجوان کو قابو میں نہیں رکھ سکے طلباء نے انہیں بھی نظر انداز کردیا ،جوار بھاٹا کے وقت ساحل پر زیادہ حادثات رونما ہوتے ہیں اس کو ذہین میں رکھ اس وقت سمندر میں کوئی بھی نہ اترے اس جانب توجہ دینا ضروری ہے کوکن کے ساحل پر لائف گارڈ کی تعیناتی سے وہاں کی گرام پنچایتوں پر معاشی بوجھ بڑھتا ہے تو ریاستی حکومت کو چاہئے کو وہ ان گرام پنچایتوں کی امداد میں اضافہ کرے تاکہ وہ لائف گارڈ ساحل پر تعینات کرے تاکہ سمندر میں ڈوبنے والوں کی قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے ،اب ان غمزدہ افراد کے زخموں پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنا مستقبل اس حادثہ میں کھودیا ہے ،حکومت کی جانب سے ان کے لواحقین کو فی کس دولاکھ روپیئے ایکس گریشیادینا کا اعلان کیا گیا ہے اور پونا یونیورسٹی کی جانب سے ایک لاکھ کی مالی امداد دینے کی بات سامنے آئی ہے ،لیکن اس ضمن میں کالج انتظامیہ کی سردمہری برقرار ہے ،اس ادارہ کے صدرسے جب غمزدہ افراد ملنے گئے اس دوارن ان کا رویہ سرپرستوں کے تیں انتہائی تکلیف دینے والاتھا ،انہوں نے ان کے خلاف بہت ہی سخت الفاظ استعمال کئے اور ان سرپرستوں کو حفاظتی عملہ کی مدد سے کالج کے باہر نکال دیا ،جس کا ایک ویڈیو سامنے آیا ہے ،کیا اس طرح کی حرکتوں سے کالج انتظامیہ کیا ان غمزدہ افراد کے دکھ دور کرپائے گا ،ضرورت اس بات کی ہیکہ ان غمزدہ افراد کے ساتھ ہمدردی سے پیش آیا جائے ،ان کو ہمت دی جائے نہ کے اسطرح ان کی تذلیل کی جائے جو کہ ان کے زخموں پر نمک رکھنے کے مترادف ہے ،
****
javedbeed@gmail.com
مہاراشٹرا ڈائری
جاوید پاشاہ بیڑ مہاراشٹر ،موبائیل نمبر 07385776786